احسن کو پیسے پکڑاتے وقت ماں نے یہ تاکید کی تھی کہ سیدھے گھر ہی آنا ورنہ خیر نہ ہوگی، ہاں ہاں امی! میں ابھی فوراّ ہی آتا ہوں - نو سالہ احسن ماں کو یقین دہائی کراتا ہوا گھر سے باہر دہی لینے کے لیے روانہ ہوا جسے سالن میں ڈالا جانا تھا، آدھا گھنٹہ گزرنے پر احسن کی کوئی خبر نہ ملی تو اس کی امی نے چادر اوڑھ کر گھر سے ذرا دور بازار کا رخ کیا ، ایک دکان پر پردے ڈلے ہوئے تھے جن کے ہلنے سے اندر موجود ٹی وی اسکرین کی روشنیاں باہر گزرنے والے بچوں کو اند کھینچنے کے لیے کافی تھیں احسن کی امی کا اندازہ درست نکلا احسن بھی ہاتھ میں دہی کی تھیلی پکڑے دوسرے بچوں کے ہمراہ انتہائی انہماک سے ویڈیو گیم پر رواں منظر دیکھ رہا تھا- یہ صرف احسن کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر چوتھے پانچویں گھر میں ہر ایک نو عمر بچہ ایسا ضرور ملے گا جس کا پسندیدہ مشغلہ ویڈیو گیمز کھیلنا نہیں تو دیکھنا ضرور ہوگا جس کے باعث نا صرف گھر کے کاموں کے دوران بلکہ اسکول آتے جاتے بھی بچے اپنا وقت اسی گیمز زون شاپ میں ضائع کرتے ہیں،اس مسئلہ کے حل میں والدین یہ نکالتے ہیں کہ بچہ کے شوق اور دلچسپی کے لیے گھر پر ہی گیم کنسول یا پھر کمپیوٹر لا کر اس کے حوالہ کردیتے ہیں تاکہ بچہ باہر کے ماحول سے متاثر نہ ہو او ر والدین کی نظروں میں رہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اس ویڈیو گیمز سے ان کا بچہ کیا کیا مضر اثرات اپنے شعور میں جذب کر رہا ہے جسے زائل کرنا آسان نہیں | ||
انسان ابتداء ہی سے فرصت کے اوقات میں تفریحی سرگرمیوں کا شوقین رہا ہے پہلے زمانے میں تیر اندازی، گھڑ دوڑ، کسرت، شہہ زوری جیسے جسمانی صحت کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ شطرنج، ڈرافٹ، لوڈو، بیت بازی، پہیلیاں بوجھنا جیسے ذہانت اور حاضر دماغی والے کھیل بھی کھیلے جاتے تھے، آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جہاں انسانی سہولت کے لیے بے شمار ایجادات وجود میں آئی ہیں وہیں کھیلوں نے بھی جدید روپ اختیار کرلیا اور کمپیوٹر کی مفید ایجاد نے ان کھیلوں کو ڈیجٹلائزڈ کرکے گھر گھر پہنچادیا ہے، | ||
آج لاکھوں کی تعداد میں ویڈیو گیمز ٹی وی اور کنسول سے کمپیوٹر تک ہر سہولت کے مطابق بازار میں بآسانی دستیاب ہیں جنہیوں نے مقبولیت کے ساتھ متنازع حیثیت بھی اختیار کرلی ہے اور یہ بحث بھی جاری ہے کہ کمپیوٹر گیمز کا استعمال تفریح و معلومات اور ذہنی تربیت کرتا ہے یا بچوں میں طبی، نفسیاتی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل پھیلارہا ہے | | |
صفحہ 1
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں نت نئی ایجادات کا استعمال بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے اور کمپیوٹر گیمز بھی ذہنی تربیت میں معاون ہے مگر اس کا نافہمانہ استعمال بچوں میں انتہائی مہلک اور منفی اثرات مرتب کرتا ہے، اس بات کا اظہار مغربی مفکرین اور نفسیات دان کررہے ہیں، ان کے مطابق جدید دور میں بنائے جانے والے گیمز بچوں اور نوجوانوں میں جارحیت پیدا کررہے ہیں، بعض ویڈیو گیمز کمپنیاں اپنے گیمز کو حقیقت سے قریب تر دکھانے اور اس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ ایسے عنصر شامل کررہے ہیں جن میں ماردھاڑ تشدد اور خون خرابہ ، جزوی یا مکمل عریانیت ، جنسی تشدد، گیم کے کردار کا مجرمانہ طرز عمل یا دیگر اشتعال انگیز اور قابل اعتراض مواد رکھنے والے ویڈیو گیمز بچوں اور نوجوانوں میں نشہ اور جارحیت جیسے مسائل پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں.، نفسیات کی اصطلاح میں جارحیت سے مراد ایسا رویہ ہے جو کسی بھی شے کو نقصان پہنچائے اور ایسا ارادہ جو کہ بدنیتی پر مبنی ہو،جارحیت کی تین قسمیں ہیں زبانی ، جسمانی، اور تعلقاتی، زبانی جارحیت سے مراد گیم میں کسی کردار کے ذریعہ گالی گلوچ یا فحش الفاظ کا استعمال بھی بچوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتا ہے، تشدد چوٹ اور مارپیٹ سے مراد جسمانی جارحیت کے ہے جو سنگین اور نقصان دہ ہونے کا امکان ہوتی ہے. کیونکہ ایسے مناظر کی دیکھا دیکھی بچے اور نوجوان اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور تعلقاتی جارحیت میں عریانیت، جنسی تشدد اور غیر اخلاقی افعال، نفسیاتی ہیجان کی کیفیت پیدا کرتے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گیم کھیلنے والے لوگوں میں 25 فیصد گیمرز 18 سال سے کم عمر کے بچے ہیں اور 32 فیصد وہ ہیں جو مکمل طور پر بالغ شعور رکھتے اور باقی بچنے والوں میں جن کا اوسط تناسب 35 فیصد ہے ایسے نوجوان ہیں جو ابھی بچپن اور بلوغت کی سرحد پر کھڑے ہیں | ||
یہی وہ دور ہے جب شعور و ذہنی سطح کے ساتھ رویوں کی گروتھ بھی ہورہی ہوتی ہے | ||
صفحہ 2
ویڈیو گیم پر سب سے زیادہ تنقید یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نوجوانوں میں حد سے زیادہ تشدد کو فروغ دیا جارہا ہے، اس تنقید پر کئی اہم اداروں مثلاً ہارورڈ میڈیکل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ ، جرنل آف ایڈولسینٹ ہیلتھ اور برٹش میڈیکل جرنل نے بھی ویڈیو گیمز کے استعمال سے پیدا ہونے والی پر تشدد سرگرمیوں کے درمیان لنک ظاہر کیا ہے. ان کے مطابق حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ زیادہ تر گیمز میں دکھائے جانے والے تشدد کو بچے اور نوجوان اسکول یا گھر سے باہر اسی طرح نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے رویوں میں ماردھاڑ کے شامل ہونے حتی کہ گالی گلوچ اور سگریٹ نوشی تک کی لت وہ گیمز سے سیکھتے ہیں، ان اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ جارحیت اور تشدد پر مبنی ویڈیو گیمز پرتشدد رویے اور مجرمانہ سوچ اور محسوسات، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں لڑائی جھگڑا، بڑھتے ہوئے جسمانی طاقت کے استعمال کا رجحان اور بہتر سماجی رویوں کی کمی میں گہرا تعلق ہے، پرتشدد گیمز ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے پرتشدد مناظرات سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیوں کے اس میں ہونے والی پرتشدد کاروائیوں میں بچہ خود بھی انوالو ہوتاہے ان گیمز میں جنسی بداخلاقی کے پہلو بھی کسی حد تک نمایاں رکھے جاتے ہیں جبکہ بعض گیمز سے بچہ معصوم راہ گیروں، پولیس کو بے دردی سے مارنا سیکھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف ہتھیاروں چاقو یا خنجر، بندوقوں اور آتشی اسلحہ، تلواروں اور بیس بال بیٹ کا استعمال کرتے ہیں گیم کھیلنے والا خود کو مجرم کی جگہ تصور کرتے ہوئے کھیلتا ہے |
صفحہ 3
ڈیوڈ گراسمین ایک سائیکلوجی پروفیسر ہیں انہوں نے گیمز میڈیا اور تشدد اور جارحیت | |
کولمبئین ہائی اسکول کے دو طالب علم 18 سالہ ایرک ہیرس اور 17 سالہ لوڈ نے 20 اپریل 1999 کو 12 طالب علموں اور ایک اساتذہ کو قتل کردیا، یہ دونوں طالب علم ڈوم نامی گیم کی لت میں مبتلا تھے اور انہوں نے یہ گھناؤنا فعل ڈوم گیم کی طرح کیا @، اپریل 2000ء میں 16 سالہ اسپینش لڑکے جوز ربدان پارڈو نے اپنے ماں باپ اور بہن کو کاٹانا تلوار سے قتل کردیا بالکل اسی طرح جس طری گیم فائنل فینٹسی 8 کے مشن میں لیون ہارٹ نامی ہیرو کرتا ہے @، نومبر 2001ء میں 21 سالہ امریکی شان وولی نے خودکشی کی اس کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک گیم ایور کوئسٹ کو نشہ کی حد تک کھیلتا تھا@، جو اس میں گیم کے لیول کے ساتھ بڑھتا گیا لیکن جب اس نے گیم ختم کرلیا اور اس کو وہ نشہ حاصل نہ ہوا جس کی اسے عادت ہوگئی تھی تو ، اس نے خودکشی کرلی | |
ستائیں دسمبر 2004ء کو 13 سالہ ژاؤ یی نے 24 منزلہ عمارت سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی@، موت سے قبل وہ 36 گھنٹے مسلسل وارکرافٹ3 گیم کھیل رہا تھا@ اگست 2005ء @ کو 280سالہ جنوبی کویائی شخص لی سیونگ سیوپ پچاس گھنٹے سے مسلسل اسٹارکرافٹ نامی گیم کھلتے ہوئے موت کا شکار ہوگیا |
صفحہ 4
انیس جنوری 2006ء @ کو ٹورنٹو کی سڑکوں پر 18 سالہ دو نوجوان لڑکوں الیگژینڈر رائزانو اور | |
ستمبر 2007ء میں @ @ @ ڈینیل پیٹرک نے اپنی والدہ کو گولی مار کر قتل کردیا اور اس کے والد بھی گولی سے زخمی ہوئے اس کے والد جو کہ ویلنگٹن اوہایو کے نیو لائف اسمبلی کے منسٹر تھے کی جانب سے ڈینیل پر گیمز کھیلنے پر پابندی لگائی گئی کیونکہ وہ وہ 18 گھنٹے روزانہ اس لت میں مبتلا رہتا ہے چنانچہ اس نے ایک گیم ہالو3 کھیلنے کے لئے اپنے بیڈروم کی گھڑکی توڑ کر والد کے کمرے میں گھسا اور گیمز کے ساتھ ان کی بندوق بھی چرا لایا اور اس سے یہ مجرمانہ کاروائی انجام دی | |
مئی 2010ء میں فرانس کا ایک گیمر جولین بیروکس نے اپنے ساتھی کھلاڑی صرف اس بات پر کہ اس نے کاؤنٹراسٹرائیک گیم میں اسے شکست دی، قتل کردیا مزید دیکھیے ویکی پیڈیا ویڈیوگیم سے پیدا ہونے والا جنون، جارحیت اور مجرمانہ سرگرمیوں نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا گیم بھی قتل اور جرم کا محرّک بن سکتا ہیں |
صفحہ 5
ویڈیو گیمز میں وہ پہلا متنازعہ گیم جو پرتشدد مناظر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا، ایگزڈی ڈویلپر کا 1976 کا گیم ڈیتھ ریس تھا جس میں گیم کھیلنے والا کھلاڑیوں کو کار کا کنٹرول سنبھالنا ہوتا ہے اور اس ریس میں اسے کار کے سامنے آنے والے کرداروں روند بھی سکتے تھے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ سکتے ہیں یہاں تک بھی بس نہ چلے تو ان ایڑھیوں کے بل کھڑے یا سسکتے لوگوں کے اوپر سے بھی کارگزار کران کا حتی الامکان خاتمہ کرسکتے ہیں بعض مناظر میں خون کی چھینٹیں کار کی ونڈ اسکرین پر بھی پھیل جاتی ہیں 1997ء میں خون خرابہ والا ایک دوسرا گیم پوسٹل کے نام سے ریلیز ہوا جس میں ڈوڈی نامی کردار راہ میں آنے والی ہر شے کو ختم کردیتا ہے، آپ لوگوں ہر طرح کے ہتھیاروں سے مار کاٹ سکتے ہیں،اس گیم کے مناظر میں جگہ جگہ آپ کو خون میں لت پت کٹی پٹی، ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاشیں نظر آئیں گی، 1992ء میں مورٹل کمباٹ نامی گیم میں سر کاٹنے اور شہ رگ علیحدہ کرنے کے مناظر دکھائے گئے اسی طری وولفیسٹن تھری ڈی اور ڈوم نامی گیمز میں قلعہ تما جیل سے فرار ہونے والا قیدی، قلعہ سے باہر نکلنے کے لیے دشمنوں کو مارتا پھرتا ہے اس میں اس کا کردار دھکایا نہیں جاتا بلکہ صرف ایک بندوق چاقو یا دوسرا اسلحہ دکھایا جاتا ہے تا کہ گیم گھیلنے والا یہ محسوس کرسکے کہ بندوق اور اسلحہ وہ خود چلارہا ہے اس کے بعد زیادہ پرتشدد اور حقیقت سے قریب تر گیمز آگئے مثال کے طور پر مین ہنٹ یعنی آدمی کاشکار گیم میں آپ انسانوں کو ہر طرح کے ہتھیار اور اوزار وغیرہ سے مارنے کا مشن ملتا ہے، |
صفحہ 6
گرینڈ آٹو تھیف 1998ء میں ریلیز ہوا اور اب تک اس کے کئی مزید گیمز منظرعام پر آچکے ہیں جسے عرف عام میں جی ٹی اے کہا جایا ہے اس گیم میں ہیرو کا کردار ایک قاتل غنڈہ کا ہے جو اپنے باس کو خوش کرنے کے لیے قتل کرتا ہے ہے، اپنے مشن کی تکمیل کے لئے وہ گاڑی چھین سکتا ہے، تیز رفتار کاروں سے راہ گیروں یا پیدل چلنے والوں کو کچل سکتا ہے، اس گیم کے ایک پارٹ جو جی ٹی اے وائس سٹی کے نام سے ہے میں کردار مختلف ہتھیاروں کے استعمال سے مدمقابل گینگ، پولیس اور بے گناہ شہریوں کو جان سے مار سکتا ہے تلوار کے ذریعہ ان کی گردنیں کاٹ سکتا ہے اور بم سے کسی بھی گاڑی یا انسان کے چیتھڑے اڑا سکتا ہے، اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے کلب میں نیم عریا ں رقص سے بھی محظوظ ہوسکتاہے اور یہاں تک ہیرو اپنے لوٹ مار کے پیسوں سے کال گرلز سے غیراخلاقی فعل بھی کرسکتا ہے، برازیل اور تھائی لینڈ میں اس گیم پر پابندی ہے اور پرطانیہ اور فرانس نے اس کی سخت مذمت کی ہے لیکن پاکستان سمیت چند ممالک میں یہ بچوں اور نوجوانوں کا مقبول ترین گیم ہے |
صفحہ 7
اب گیم کی مارکیٹنگ اور نوجوانوں میں مقبول بنانے کے لیے اس میں غیراخلاقی ، فحش مواد کو بھی اپنے گیمز میں شامل کرتے ہیں، فلوریڈا سینٹرل یونیورسٹی میں 1998ءکے ایک مطالعہ میں اس وقت کے ٹاپ گیمز لیے گئے جس میں 41 فیصد گیمز میں عورت کے کردار کو خاص اہمیت نہیں دی گئی، 28 فیصد میں عورت جو ایک جنسی شے کے طور پر پیش کیا گیا، 21 فیصد میں خواتین کے خلاف تشدد دکھایا گیا اور 30 فی صد گیمز میں خواتین کا کردار سرے سے موجود نہیں تھا. لیکن گذشتہ سالوں میں گیمز میں خواتین کے کردار میں کافی فروغ آیا ہے اور 2000ء کے برطانوی سروے کے مطابق گیم میں غیراخلاقی مواد میں بھی 34 فیصد اضافہ ہوا ہے،فارن ہائیٹ، پلے بوائے، سنگل، لولا تھری ڈی، لیسور سوٹ لیری ایسے گیمز ہیں اور بازاروں میں عام دستیاب ہیں |
ایک عام کار ریس گیم کھیلنے والوں کے برعکس جنگ و تشدد سے بھرپور گیم کھیلنے والے بچوں کے دماغ کے حصہ امیگڈالا میں غیرمعمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی، یہ حصہ جذباتیت سے تعلق رکھتا ہے |
صفحہ 8
| ہمارے اس مضمون کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ویڈیو گیم کو بچوں اور نوجوانوں کے لیے خطرناک قراد دے کر ان کے ویڈیو گیمز کھیلنے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگادی جائے، بلکہ یہ بتانا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو ہر ویڈیو گیم کھیلنے نہ دیا جائے، بچپن سے نوجوانی اور پھر جوانی تک عمر کے ساتھ ساتھ شعور اور ذہنی سطح میں بھی فرق ہوتا ہے، ایسے بچہ اور نوجوان جو ابھی پختہ شعور تک نہیں پہنچے ہیں انہیں تشدد و جارحیت اور غیراخلاقی مواد سے بھرپور گیمز کی بجائے ان کے لیے ایسے مفید گیمز کو ترجیح دی جائے جو ان کی ذہنی تربیت میں اضافہ کرے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور سیکھنے کے عمل کو فروغ دے، مثال کے طور پر جاپان کے ریوٹاکاواشیما نے بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے چند کھیل وضع کیے اور ننٹنڈو ڈی ایس کمپنی نے اسے گیمز کی صورت میں ڈھالا جس کا نام ڈاکٹر کاواشیما برین ٹریننگ اور برین ایج ہے، اس گیم میں ہلکی پھلکی اور سادہ ذہنی مشقیں شامل ہیں پروفیسر کاواشیما کا دعوی ہے کہ اس گیم کا روزانہ استعمال ذہنی سرگرمیوں کو کمزور ہونے سے روکتا ہے اور آپ کے دماغ کی عمر میں اضافہ کرتا ہے، اس قسم کی سرگرمیاں دماغ میں پری فرنٹل کارٹیکس میں خون کا بہاؤ پیدا کرتی ہیں، دماغ کا یہ حصہ یادداشت، منطق اور دیگر ایسے پیچیدہ رویے ممکن بناتا ہے جو عمر رسیدگی کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتے جاتے ہیں، دیکھیے ننٹنڈو کادعوی | ||
|
صفحہ 9
ویڈیو گیمز کھیلنے کے فائدے | |
موٹاپا سے نجات: رئیل گیم کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق 2،700 لوگوں میں ٹیلی ویژن اور موویز کے برعکس ویڈیو گیمز کھیلنے کے دوران میں 59 فیصد انیکس یا ہر وقت کھانا سے ان کی توجہ ہٹی رہتی ہے اور وہ موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے، جبکہ تمباکو نوشی کرنے والوں میں سے 42 فیصد نے کہا کہ غیر متوقع طور پر گیم کھیلنے نے ان کی اسموکنگ کی لت میں کافی حد تک کمی کی ہے | |
صفحہ 10
بہتر معلومات: ویڈیو گیمز کھیلنا آپ کی ادراکی صحت یعنی ذہنی معلومات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے. یہ تعجب نہیں کیوں ، کیونکہ گیم کی اکثریت کھلاڑی کو قوانین کی پیروی کرنے کی پابند بناتی ہے، آپ میں حکمت عملی اور تدبیر اور تیزی سے فیصلے کرنے کی قوت اور جیتنے کے مقاصد کو پورا کرنے کو فروغ دیتی ہے ایک مطالعہ میں ایلی نوئیس یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر آرتھر کریمر @ @ نے حال ہی میں پتہ چلایا ہے کہ رائز آف نیشن جیسے حکمت عملی والے گیمز آپ کی معلومات اور یادداشت میں اضافہ کرتے ہیں اسی طرح جون 2008 میں سونی اور یاہو کمپنی کے والدین سے کیے گئے ایک بڑے سروے کے مطابق 70 فی صد والدین کا کہنا ہے کہ جب سے ان کے بچوں نے گیم کھیلنا شروع کیا ہے ان کے بچوں میں مسئلہ کو خود حل کرنے مہارت دیکھی گئی ہے ، وہ سیکھ چکے ہیں کے کس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے | |
صفحہ 11
بہتر موڈ اور متحرک صلاحیتیں: وسطی کیرولینا یونیورسٹی میں تفریح اور فرصت کے اوقات کے متعلق شعبہ ڈیپارٹمنٹ آف ریکری ایشن اینڈ لیژور کی 2008ء کی تحقیق @ @ @ کے مطابق ، ویڈیو گیم روز مرہ کے اسٹریس جو ہم محسوس کرتے ہیں کم کرتا ہے ہے، اور غیر متوقع طور پر گیم کھلاڑی کے موڈ کو بہتر بنا سکتے ہیں. سائنسدانوں کے مطابق دماغ کی اسکیننگ سے پتہ چلتا ہے کہ ویڈیو گیمز کھیلنے والے کے دماغ میں ڈوپامائن کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا ہے، ڈوپامائن دماغ میں سکون اور مسرور کن رویوں کو ظاہر کرتی ہے ، اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ٹیٹرس جیسے گیموں کے ذریعہ درد اور ذہنی مرض سے نجات میں میں مدد مل سکتی تھی. ٹیٹرس دماغی قوتوں کو مقابلہ کرنا سکھاتا ہے ، ڈاکٹر ایمیلی ہومز نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا. ہماری تجویز ہے کہ اس طرح کے گیم ان لوگوں کے لیے خاص طور پر جن کی حسی صلاحتیں کسی صدمے کے باعث کمزور پڑگئی ہیں اور حسوں کو متحرک کرنے میں یہ اہم کردار ادا کرتا ہے | |
شدید درد کے لیے ایک علاج : میڈیکل نیوز ٹوڈے نے اپنی سال 2007 کی رپورٹس @ @ میں کہا ہے کہ نیشن وائڈ چلڈرنز ہاسپٹل برن سینٹر نے شدید درد میں مبتلا بچوں کے لئے ویڈیو گیمز کا استعمال شروع کروایا ان کے مطابق درد کا سے سب سے بہترین قدرتی علاج شاید اس طرف سے توجہ ہٹانا ہے اور ویڈیو گیمز اس میں مدد کرتا ہے، ڈاکٹر کیتھرین بٹز نے بتایا کہ ریسرچ فکر اور درد کے درمیان ایک بہت مضبوط تعلق ظاہر کرتی ہے. کسی بھی طرح کی فکر مریضوں کو مزید پریشان کردیتی ہے اور اس طرح اس کا علاج کرنا آسان نہیں ہوتا، اس طریقہ کار سے بہت زیادہ آسانی سے بچوں کا علاج کیا جاسکتا ہے اور اس دوران انہیں اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی ہے، اس کے علاوہ میڈیا پر کیموتھراپی کے مراحل میں مریضوں کی مدد کے لئے ہسپتالوں میں ویڈیو گیمز کا استعمال کے بارے میں بھی رپورٹس ملتی ہیں | |
صفحہ 12
امیجینیشن بہتر بنائیں: کیا آپ کو ایک فوجی بن کرمیدان جنگ میں اترنا چاہتے ہیں؟ یا ایک جیٹ جہاز پرواز کرتے ہوئے یا خون آشام بلاؤں کو ختم کرکے دنیا کو بچائیں گے؟ جن حالات کو آپ نے کبھی دیکھا نہیں سنا نہیں ویڈیو گیم کے ذریعہ آپ امیجین کرسکتے ہیں اور یہ امیجیناشن خیالی پلاؤ پکانے سے بہتر ہے ، سمز گیم کے خالق ول رائٹ کے مطابق گیمرز ایک بالکل نئے طریقے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں ، وہ دنیا کو کی تخلیق کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں نہ کہ خاتمہ کے، یہ سچ ہے ویڈیو گیمز کا اثر ہماری ثقافت پر بھی پڑے گا |
صفحہ 13
اب والدین اپنے بچوں کے لیے اچھے اور برے گیمز سے کیسے آگاہ ہوں اس کے لیے 1993ء میں امریکہ میں ان پرشدد ویڈیو گیمز کے خلاف کانگریس میں آواز اٹھائی گئی جس میں انتہائی کامیابی سے دباؤ ڈالا گیا کہ ویڈیو گیم انڈسٹری ایک ایسا نظام وضع کرے جس سے گیم میں استعمال ہونے والے تشدد یا غیراخلاقی مواد کے بارے میں والدین کو آگاہ کیا جاسکے، چنانچہ 1994ء میں ای ایس آر بی یعنی انٹرٹینمنٹ سافٹ وئیر ریٹنگ بورڈ @ کے نام سے ادارہ قائم ہوا جس نے دنیا بھر کے گیمز کو مندرجہ ذیل مخصوص درجہ بندی میں تقسیم کیا | |
ہرگیمز کے باکس اور سی ڈی کے سرورق پر اس درجہ بندی کا لیبل لگا ہوتا ہے تاکہ آپ گیم کی نوعیت سے آگاہ ہو سکیں کہ یہ گیم کتنی عمر کے بچوں کے لیے موزوں ہے |
صفحہ 13