صفحہ اول فیس بک آر ایس ایس ٹیوٹر بلاگر
PrintPrint Friendly
اپنی زبان میں ترجمہ کریں Translate this Page Google-Translate-English Google-Translate-Chinese (Simplified) BETA Google-Translate-URDU to French Google-Translate-URDU to German Google-Translate-URDU to Italian Google-Translate-URDU to Japanese BETA Google-Translate-URDU to Korean BETA Google-Translate-URDU to Russian BETA Google-Translate-URDU to Spanish Google-Translate-URDU to Turkish Google-Translate-URDU to Arabic Google-Translate-URDU to Hindi

گوگل بز، روبوٹک ہاتھ، مصنوعی قرنیہ



گوگل اس کوشیش میں ہے کہ انٹرنیٹ کی سماجی سرگرمیوں میں وہ فیس بک کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔ بز میں کئی نئی سہولتیں ہیں جو شاید لوگوں کو اس کی طرف لے آئیں۔ ان میں موبائل فون کے صارفین کے لیے کئی اہم سہولتیں شامل ہیں۔بز استعمال کرنے والے موبائل فون کے ذریعے یہ معلومات بھیج سکتے ہیں کہ وہ کس قت کہاں ہیں۔ اپنی پوزیشن کا اطلاع کرنے کے بعد وہ نہ صرف دیگر مقامی سہولتوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف فورمز پر اس علاقے کے لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔
گوگل کا کہنا ہے کہ ’اس طرح سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ محلے میں لوگ کیاکچھ کہہ رہے ہیں۔ اس نئی ویب سائٹ میں ٹویٹر جیسی سہولتیں بھی موجود ہیں۔ٹیوٹر کی طرح آپ بز پر بھی کسی شخص کے’فالوؤر‘ بن سکتے ہیں۔

سے بڑی سوشل نیٹورکنگ سائٹ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جی میل استعمال کرنے والے تو ضرور ’بز‘ کا استعمال کرنا پسند کریں گے۔ اس وقت تقریباً سترہ کروڑ لوگ جی میل استعمال کرتے ہیں۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہےاس سوشل نیٹورکنگ سائٹ کا افتتاح کر کے گوگل اس کوشیش میں ہے کہ انٹرنیٹ کی سماجی سرگرمیوں میں
نیٹورکنگ سائٹ کا افتتاح کر کے


گوگل بز
گوگل کی ای میل سروس ’جی میل‘ سے منسلک یہ سماجی نیٹورکنگ سائٹ فیس بُک اور ٹویٹر سے مقابلہ کرے گی۔ فیس بُک کی سائٹ سنہ 2004 میں شروع کی گئی تھی اور اب اس کو تقریباً چالیس کروڑ افراد استعمال کرتے ہیں اور یہ دنیا کی سب






انسانی خصوصیات کا حامل روبوٹک ہاتھ
ییل میں میکینکل انجینئرنگ کےاسسٹنٹ پروفیسرہارون ڈالر ، ایسا
روبوٹ بنا رہے ہیں جو انسانوں کی طرح ایک نرم ہاتھ رکھتا ہو. اس
نرم پلاسٹک کے ہاتھ کے ذریعہ روبوٹ چیزوں کو نقصان پہنچا ئے بغیر
بآسانی گرفت میں لے سکتا ہے. یہ سستا ہے اور عام دھاتی روبوٹ سے
کم توانائی استعمال کرتا ہے. ہے ڈالر کی ڈیزائین کردہ فرینچ پلاسٹک
کی انگلی سے روبوٹ ہلکے سے برش استعمال کر سکتے ہیں کسی چیز
کو چاہے اسے گلاس ہو یا گیند یا ٹیلی فون ان کی فرینچ پلاسٹک
انگلیوں کے استعمال سے محفوظ
رہے گا. اس ہاتھ کی انگلیاں سختی
کے مختلف درجات کے ساتھ تین
اقسام پلاسٹک کی بنی ہوئی ہیں ابھی اس پرتجربات جاری ہیں
<<<<< روبوٹک ہاتھ









انسانی آنکھ کامصنوعی قرنیہ
سوئیڈن میں لیباٹری میں مصنوعی طریقے سے تیار کردہ قرنیہ یا انسانی آنکھ کی جھلی سے دس افراد کی بینائی بحال کرنے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے۔ مصنوعی طریقے سے بنائے گئے قرنیہ سے ایک امید سے پیدا چلی ہے کہ اب قرنیہ کے عطیات جمع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سکیورٹی ضروریات سے نمٹ سکیں۔یہ نئی ٹیکنالوجی کمپیوٹرز کے ایسے نئے ماڈل تیار کرے جو
موجودہ کمپیوٹرز سے نہ صرف زیادہ تیز کام کر سکیں گے بلکہ زیادہ آسان بھی ہوں گے اور بجلی بھی کم خرچ کریں۔ ایکسا سکیل مشینوں کی ٹیکنالوجی کے ماڈل تیار کرنے کے لیے منتخب کی جانے والی کمپنیوں میں اِنٹیل، نِویڈیا، ایم آئی ٹی اور سینڈیا نیشنل لیبارٹری شامل ہیں۔

ہزار گنا تیز رفتار کمپیوٹرز کی تیاری
امریکی فوج کے تحقیقاتی ادارے ڈیفنس ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی یعنی ڈارپا نے ’ایکسا سکیل‘ نامی نئے تیز رفتار کمپیوٹرز بنانے کے لیے کئی کپمنیوں کو تحقیقات کے لیے رقم فراہم کر دی ہے۔ موجود سب سے تیز کمپیوٹر کی فی سیکنڈ رفتار ایک پیٹا فلاپ یعنی ایک ہزار کھرب کیلکولیشن فی سکینڈ ہے جب کہ ایکسا سکیل کمپیوٹروں کی رفتار اس سے ہزار گنا زیادہ یعنی دس لاکھ کھرب کیلکولیشن فی سکینڈ ہو گی

امریکی فوج کے اس تحقیقاتی منصوبے کو ’یوبِکویٹس ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ پروگرام‘ یعنی یو ایچ پی سی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکی دفاعی ادارے ڈارپا کا کہنا ہے کہ توقع ہے یہ ایکسا سکیل کمپیوٹر سنہ 2018 تک تیار ہو جائیں گے۔ ڈارپا کے مطابق اس منصوبے کا مقصد ایسے کمپیوٹر تیار کرنا ہے جو کہ آج کل کے دفاعی اور







گوگل کی سمارٹ ٹی وی سروس
انٹر نیٹ کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے اب ٹی وی سروس
شروع کی ہے جس میں ٹیلی ویژن کی نشریات کو ویب سے منسلک
کر دیا گیا ہے۔سمارٹ ٹی وی کے ذریعے اب صارفین مختلف ٹی وی
چینل کی نشریات بھی ویب پر دیکھ سکیں گے اور یو ٹیوب جیسی
سائٹس سے بھی مستفید ہو سکیں گے۔خصوصی ٹی وی سیٹس یا
پھر عام ٹی وی سیٹس کے ساتھ ایک گوگل بکس لگانا پڑے گا جس
کے بعد لوگ ٹی وی کے ذریعے ویب تک رسائی حاصل کر سکیں
گے اور وہاں سے مواد ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے۔اس طرح کا پہلا ٹی وی
سونی کمپنی نے بنایا جو اس سال موسم خزاں کے بعد مارکیٹ میں
فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔گوگل کے ایک اہلکار رشنی چندرا
نے کہا کہ ’ویڈیو اب آپ اپنے گھر میں بڑی، روشن اور بہترین
اسکرین پر دیکھ سکیں گے‘۔










 
Generation Next جنریشن نیکسٹ. میں مزید نکھار کے لیے ہمارے فیس بک پیج پررابطہ کریں. یا پھر ہمیں ای میل کریں، منجانب محمد ذیشان خان .